Tuesday, December 23, 2014

Do you remember that?

یاد ہے تم کو
اک لڑکی تھی سیدھی سادی
اپنے آپ میں رہنے والی
عشق محبت اور جنوں کو
محض حماقت کہنے والی
ہر اک دکھ کو چپکے چپکے
اپنے دل پہ سہنے والی
یاد ہے تم کو
اس نے تم سے پیار کیا تھا
اپنی خوشیاں' دل اور جیون
سب کچھ تم پر وا ردیا تھا
اس کی آنکھوں میں کھو کر تم
اپناآپ بھلا بیٹھے تھے
چین سکون گنوابیٹھے تھے
یاد ہے تم کو اس لڑکی نے
ہنس کر ہر اک زخم سہاتھا
کبھی نہ تم سے گلہ کیا تھا
پھر بھی تم نے
لوگوں کی باتوں میں آکر
اس کے دل کو توڑ دیا تھا
عشق کی منزل پر لانے سے پہلے اس کو چھوڑ دیا تھا
یاد ہے تم کو بچھڑکے تم سے
وہ لڑکی پھر بکھر گئی تھی
دنیا والے ایک طرف وہ اپنے آپ سے بچھڑ گئی تھی
اب تم کووہ یاد آتی ہے 'تنہائی میں تڑپاتی ہے
لیکن جاناں
اب پچھتانے سے کیا حاصل
اب وہ موسم گزر گیا ہے' دل کا گلشن اجڑ گیا ہے
اور چاہت کا دل کش موسم دستک دے کر
خالی ہاتھ گزر جائے تو دل بھی خالی رہ جاتے ہیں
سچے پیار کو کھونے والے 'اکثر یوں ہی پچھتاتے ہیں
خود بھی خالی رہ جاتے ہیں

نازیہ کنول نازی


Height of Innocence.

ﺍﺫﯾﺘﻮﮞ ﮐﮯ
ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺸﺘﺮ
ﻣﯿﺮﯼ ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻭﮦ
ﺑﮍﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ
ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ؟


محبت روشنی میں رنگ بھرتی ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کسے مجرم سمجھتے ہو
میں کہتا ہوں، اسے جو درد کے معنی نہ سمجھا ہو

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، جھوٹ اور سچائیاں کیا ہیں
میں کہتا ہوں کہ نیت اور نتائج کی پزیرائی

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، سب سے پہلے کون رہتا تھا
میں کہتا ہوں کہ اندازہ یا مفروضہ ہی ممکن ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کون رہ جائے گا دینا میں
میں کہتا ہوں کہ بالکل اک نئی اور اجنبی دنیا

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، موت کے بارے بتاؤ گے
میں کہتا ہوں، خط تنسیخ ہے آغاز سے پہلے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، جنگلوں میں کون رہتا ہے
میں کہتا ہوں، وہی جو شہر میں رہنے سے خائف ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آسمانوں سے پرے کیا ہے
میں کہتا ہوں، نہ ویرانے نہ آبادی نہ بربادی

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، وقت کو تم کیا سمجھتے ہو
میں کہتا ہوں کہ ہر احساس کے اعداد کی گنتی

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا خدا کو مانتے ہو تم
میں کہتا ہوں، یقیناً اور اسے محسوس کرتا ہوں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، یہ مذاہب کے مسائل کیا
میں کہتا ہوں کہ دینا کے بڑے لوگوں کی باتیں ہیں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خواب کی تعبیر کے بارے
میں اس سے پوچھتا ہوں، عقل کی جاگیر کے بارے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، زندگی کے راز کے بارے
میں اس سے پوچھتا ہوں، دھڑکنوں کے ساز کے بارے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اور دن کی مسافت کیا
میں کہتا ہوں، یہ سائے ہیں کسی قیدی مسافر کے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، ہم اگر کچھ بھی نہیں ہیں تو
میں کہتا ہوں، نہیں ہونا بھی ہوتا ہے جہانوں میں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، عقل کیا ہے اور دل کیا ہے
میں کہتا ہوں کہ بس اک اختلافِ عملِ پیہم ہے

وہ بولی، آسمانوں کی طرف نظریں نہیں اٹھتیں
میں کہتا ہوں کہ شاید بوجھ پڑتا ہو نگاہوں پر

وہ بولی، پھر پلٹ آئے، چلے تو پھر پلٹ آئے
میں بولا، بند کوچے کا سفر ہے زندگی اپنی

وہ بولی، ہر سڑک جاتی ہے غم کے شہر کی جانب
میں بولا، اور اگر وہ شہر اپنے دل میں ہو تو پھر

وہ بولی، غم ہمیشہ ساتھ دیتا ہے مصیبت میں
میں بولا، اک ذرا ٹھہرو، مجھے کچھ غور سے دیکھو

وہ بولی، کیا ضروری تھا مجھے تم ساتھ ہی رکھتے
میں بولا، روح بن میں جسم کیا کرتا، کہاں جاتا

وہ بولی، آ گیا ہے ریتلا موسم جدائی کا
میں بولا، میں تیرا صحرا نورد مستقل ٹھہرا

وہ بولی، ریت اڑتی ہے تو آنکھوں میں بھی پڑتی ہے
میں بولا، درد کی ماری ہوئی آنکھوں کو اس سے کیا

وہ بولی، سوچ لو اس دھوپ میں کانٹے برستے ہیں
میں بولا، یہ تو اچھا ہے بدن پر پھول مہکیں گے

وہ بولی، رات زخموں پر بہت ٹیسیں بھی برسیں گی
میں بولا، زخم پر زخموں کو سہ جانے کی عادت ہے

وہ بولی، آرزوؤں کے لہو کا زائقہ کیا ہے
میں بولا، تلخ ہے میٹھا ہے، کڑوا ہے رسیلا ہے

وہ کہتی ہے کہ میں تو مانگ میں سورج سجاؤں گی
میں کہتا ہوں کہ سورج کی وضاحت ہو مگر پہلے

وہ کہتی ہے، میں اپنے دل میں اک دیوار اٹھاؤں گی
میں کہتا ہوں کہ میں اس بات کا مطلب نہیں سمجھا

وہ کہتی ہے، میں آنکھوں میں کوئی صحرا بساؤں گی
میں کہتا ہوں کہ بینائی جھلس جائے گی ایسے تو

وہ کہتی ہے، میں پیڑوں پر تمہارا بخت لکھوں گی
میں کہتا ہوں کہ پیڑوں سے عداوت ہے تمہیں کوئی

وہ کہتی ہے، میں پانی پر تیرا چہرا بناؤ گی
میں کہتا ہوں، مجھے لگتا ہے تیرا دل بھی پانی تھا


وہ کہتی ہے، غبارِ وقت میں دھندلا گیا جیون
میں کہتا ہوں، پلٹ کر دیکھنا تکلیف دیتا ہے

وہ کہتی ہے کہ تم مجھ کو پکارا ہی نہیں کرتے
میں بولا کیا، کروں کوئی گوارا ہی نہیں کرتا

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا مجھے تم یاد کرتے ہو
میں کہتا ہوں کہ جانِ من تمہیں میں بھولتا کب ہوں

وہ کہتی ہے کہ اب تو رائیگاں لگتا ہے سارا کچھ
میں کہتا ہوں، مجھے تو رائیگانی کا بھی دھوکا ہے

وہ کہتی ہے، تمنائیں سلامت ہی نہیں اب تو
میں کہتا ہوں کہ جیون میں یہ ٹھہراؤ بھی آتا ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، شورش، چشمِ تماشہ کیا ہے
میں کہتا ہوں، کہ یہ تو شورش عالم کا حصہ ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بیعت سلطان غم کیونکر
میں کہتا ہوں کہ یہ آداب ہیں رسمِ محبت کے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، جبر پر صبر مسلسل کیوں
میں کہتا ہوں کہ جب تک جنگ کی صورت نہیں بنتی

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، عالم بالا کہاں پر ہے
میں کہتا ہوں، ہماری فکر کی بالائی منزل پر

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، سب قیام و نظم کیسے ہے
میں کہتا ہوں، کوئی تو ہے جسے سب ٹھیک کرنا ہے

وہ کہتی ہے، رزقِ خاک بے معنی ہوں دنیا میں 
میں کہتا ہوں کہ یہ سارا نظامِ آدمیت ہے

وہ کہتی ہے، میں عجز فطرت کونین ہوں جاناں 
میں کہتا ہوں، مجھے معلوم ہے اے عظمتِ خاکی

وہ کہتی ہے، خوابِ نورِ باطن ہوں صحیفوں میں
میں کہتا ہوں، کسے انکار ہے اے خواہشِ یزداں

وہ کہتی ہے، میں حسنِ نرمیِ احساس ہوں فرحت
میں کہتا ہوں کہ میں تو خود گواہ لمسِ شبنم ہوں

وہ کہتی ہے کہ میں خوشبوئے عطر سرخیِ صبح ہوں
حواسِ خمسہ عالم مجھے محسوس کرتے ہیں


وہ کہتی ہے، مجھے مایوسیاں رستہ نہیں دیتیں 
میں کہتا ہوں کہ یہ مایوسیاں طاقت بھی ہوتی ہیں

وہ کہتی ہے، بہت تنہا ہوں میں اس پوری دنیا میں
میں کہتا ہوں کہ یہ احساس تو ہوگا خدا کو بھی

وہ کہتی ہے کہ مجھ پر شہر کے وحشی لپکتے ہیں
میں کہتا ہوں کہ تم کردار کو سینہ سپر کر دو

وہ کہتی ہے، ہجوم بد روش سے خوف آتا ہے
میں کہتا ہوں، مجھے اجڑی ہوئی گلیاں ڈراتی ہیں

وہ کہتی ہے، مجھے بے حس زمانے سے شکایت ہے
میں کہتا ہوں کہ شکوہ شکایت رائیگاں ہے سب

وہ بولی، تم کہاں غائب ہوئے رہتے ہو راتوں کو
میں بولا، میں تو بس آوارہ پھرتا ہوں اداسی میں

وہ بولی، فون بھی اکثر بہت انگیج رکھتے ہو
میں بولا، بے سروپا گھنٹیوں سے خوف آتا ہے

وہ بولی، تم بہت کنجوس ہو خط بھی نہیں لکھتے
میں بولا، خط لکھوں تو شاعری ناراض ہوتی ہے

وہ بولی، تم کبھی ملنے چلے آؤ جو ممکن ہو
میں بولا، یہ تو تم نے میرے دل کی بات کہ دی ہے

وہ بولی، آج موسم میں عجب سی خوشگواری ہے
میں بولا، ہاں یہ موسم پیار سے ملنے کا موسم ہے

وہ کہتی ہے کہ اب آوارگی سے کچھ نہیں حاصل
مجھے حیرت ہے یہ سب کچھ وہ مجھ بادل سے کہتی ہے

وہ کہتی ہے، ہوا تو بانجھ پن تقسیم کرتی ہے
میں کہتا ہوں، مگر دھرتی ہوا کے بس سے باہر ہے

وہ کہتی ہے، شبیں دھوکے میں رکھتی ہیں ہمیشہ ہی
میں کہتا ہوں، کہیں یہ تو نہیں دھوکا دنوں میں

وہ کہتی ہے، مجھے تو زندگی سے ایک شکوہ ہے
ہمیشہ سائلوں کو موت کے سائے میں رکھتی ہے

وہ کہتی ہے، خدا ملتا تو اس سے بات کرتی میں
میں کہتا ہوں، مگر میں تو خاموشی بانٹتا رہتا

وہ کہتی ہے کہ فرحت بے ضرر رہنا نہیں اچھا
میں کہتا ہوں، کئی اچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں


وہ کہتی ہے، یہ خاموشی بھی کچھ تو سوچتی ہوگی
میں کہتا ہوں، وہی جو گفتگو کی بھیڑ میں کھو جائے

وہ کہتی ہے، کہ فرحت کچھ دنوں سے بولتے کم ہو
میں کہتا ہوں، کئی دکھ بولنے سے روک دیتے ہیں

وہ کہتی ہے، مجھے یہ سوچ کر بتلا میں کیسی ہوں
میں کہتا ہوں، سرابی سوچنے میں وقت لگتا ہے

میں کہتا ہوں، تمہیں دریا کنارے کیسے لگتے ہیں
وہ کہتی ہے، تمہیں بچھڑے سہارے کیسے لگتے ہیں

میں کہتا ہوں، مجھے تم ہنستی گاتی اچھی لگتی ہو
وہ مجھ سے، پوچھتی ہے، درد سے ڈرنے لگے ہو کیا

وہ بولی، رات سے کیا بات کرتے ہو اکیلے میں
میں بولا، درد کی، کچھ کچھ محبت کی، جدائی کی

وہ بولی، چاند کیا آتا ہے تم سے چونچلیں کرنے
میں بولا، ہاں کبھی سپنوں کے آنگن میں اترتا ہے

وہ بولی، کون اکثر یاد آتا ہے اداسی میں
میں بولا، کچھ پرانے راستے، بچپن اور اک لڑکی

وہ بولی، درد کی جزیات میں پڑنے سے کیا بہتر
میں بولا، درد کو خوش خوش سہیں اور کوچ کر جائیں

وہ بولی، زندگی تو دائرں کے پھیلنے سے ہے
میں بولا، موت بھی اک دائرہ ہے دور تک پھیلا

وہ بولی، روح کے اندر کہیں پر آگ جلتی ہے
میں بولا، ہاں دھواں میں نے بھی دیکھا ہے نگاہوں میں

وہ بولی، اک دہکتا شور شریانوں میں بہتا ہے
میں بولا، ہاں، بدن پر آبلے میں نے بھی دیکھے ہیں

وہ بولی، سانس پر بھی درد کے کوڑے برستے ہیں
میں بولا، ہاں لہو پر نیل تو میں نے بھی دیکھے ہیں

وہ بولی، ذات کی تہ میں نہ جانے کیا نہاں ہوگیا
میں بولا، جسم پر ابھری وریدوں سے بھی ظاہر ہے

وہ بولی دق زدہ جیون چھپاتی پھر رہی ہوں میں
میں بولا، ناخنوں کی زردیوں نے کر دیا عریاں



وہ بولی، تم بھی فرحت زندگی سے روٹھ جاؤ گے
میں بولا، ہاں، شاید موت مجھ سے مان جائے گی

وہ بولی، تم خوشی کے گیت کو مایوس کرتے ہو
میں بولا، کیا کروں ان مختصر گیتوں کےموسم کا

وہ بولی، تم تو فرحت خود ہی خود سے ہار جاتے ہو
میں بولا، کیا کروں کمزور ہوں اور بے سہارا ہوں

وہ بولی، کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہے تمہارا غم
میں بولا، یہ بھی ممکن ہے یہ سب احتراماً ہو

محبت میں غموں کی اس قدر یلغار کیوں،۔۔۔۔ بولی
میں بولا، تم کسی دن یہ تو اپنے آپ سے پوچھو

وہ کہتی ہے، سنو فرحت تمہارا خواب کیوں ٹوٹا
میں کہتا ہوں، سرابی دل میں کوئی کینچ پڑتی تھی

تمہاری شاعری میں زندگی کی سسکیاں کیوں ہیں
میں بولا، آنسوؤں کی ابتدائی شکل جو ٹھہرے

وہ کہتی ہے کہ فرحت شاہ میں کچھ مضطرب سی ہوں 
میں کہتا ہوں، سرابی تم تو میری روح جیسی ہو

وہ کہتی ہے، تمہیں کیوں خوف آتا ہے ہواؤں سے
میں کہتا ہوں، سرابی دیپ تو ایسے ہی ہوتے ہیں

وہ کہتی ہے، چلو فرحت ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
میں خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیتا ہوں بجھنے کو

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کہا غائب ہو صدیوں سے
میں کہتا ہوں، ہزاروں وسوسوں کے درمیاں گم ہوں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات کی بےچینیاں کیا ہیں
میں کہتا ہوں، وہی جو دوریوں کے دل میں ہوتی ہیں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خوف کا دورانیہ کیا ہے
میں کہتا ہوں، جو دل اور غم کا ہوتا ہے مصیبت میں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کی عمر کتنی ہے
میں کہتا ہوں، تمازت کے مطابق پانیوں کے وقت جتنی ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اتنی بے زباں کیوں ہے
میں کہتا ہوں، زباں تو درد کی شدت کی ہوتی ہے


محبت ایک پل بھی سکھ نہیں دیتی، کہا اس نے
کہا میں نے، محبت کے علاوہ کون سا سکھ ہے؟

محبت شہر بھر میں گونج جاتی ہے، کہا اس نے
کہا میں نے، محبت کے چھپا رہنے کی خواہش کیا

محبت چپ نہیں رہتی کسی پل بھی، کہا اس نے
کہا میں نے، محبت بن تو کائنات گونگی ہے

محبت ذہین کا اک خاص عالم ہے، کہا اس نے
کہا میں نے، محبت روح کی دہلیز ہوتی ہے

محبت بے سبب تڑپائے رکھتی ہے، کہا اس نے
کہا میں نے، کہ یہ اسباب کیا شے ہے محبت میں

وہ کہتی ہے، ستارے آنسوؤں میں کیوں چمکتے ہیں
میں کہتا ہوں، محبت روشنی میں رنگ بھرتی ہے

وہ کہتی ہے، ہوا کے ہاتھ میں کیا کیا نہیں آتا
میں کہتا ہوں، جو دہلیزوں کے اندر دفن ہوتا ہے

وہ کہتی ہے، زمانے کودلوں سے رنج کیونکر ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ آزار تو صدیوں کی قسمت ہے

وہ کہتی ہے، تمہارے بعد کیوں بارش نہیں ہوتی
میں کہتا ہوں، میری جاں ہجر صحراؤں میں رہتا ہے

وہ کہتی ہے، کہ خوشیوں میں بھی تم تو رونے لگتے ہو
میں کہتا ہوں، مری آنکھوں کو ساون اچھا لگتا ہے


فرحت عباس شاہ


سنو!

سنو!

بہت مصروف ہو تم بھی
مجھے بھی سچ کہوں تو
بہت سے کام کرنے ہیں
ابھی تشکیک باقی ہے
میری تحقیق باقی ہے
کئی غز لیں ادھوری ہیں
مری ماں کو شکایت ہے
میں کھانا بھول جاتی ہوں
کتابوں کو الگ شکوہ
کہ بے ترتیب رہتی ہیں
مگر تم جانتے ہو نا!
تمھاری یاد میں گم صم
میں پھروں بےعمل رہ کر
کئی سپنے سجاتی ہوں
تمھارے ہاتھ ہاتھوں میں
میں دھیرے سے دباتی ہوں
سنو! جو فرض ہیں میرے
توجہ سے نبھاتی ہوں
مگر یہ کیا؟
رہی یہ سردمہری اور بظاہر بے عمل رینا
کسی کو بھی نہیں بھاتا
گِلے سب کے بجا لیکن
فقط اِس پہ ہی کیا موقوف ہے
تمھیں جب یاد کرتی ہوں
میں رب کو بھول جاتی ہوں
بس اب اتنی گزارش ہے
تمھیں گر چند لمحوں کی
فراغت ہو
تو کچھ کاموں کو بن سوچے
نہ اتنے جو ضروری ہوں
انہیں تم کل پہ رکھ دینا
مری خاطر چلے آنا
مرا یہ بے عمل رہنا
تمہی موقوف کر جاؤ
مجھے مصروف کر جاؤ

پریا تابیتا


ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮔﮭﺮﻭﻧﺪﮦ ﺗﮭﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﻣﯿﮟ
ﺍِﮎ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺿﺪ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﺗﻢ ﻧﮯ ﺁﺝ ﮐﮭﻮﯾﺎ ﮨﮯ
ﺁﺝ ﺿﺒﻂ ﺭﻭﯾﺎ ﮨﮯ



ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
شام کے پار کوئی رہتا ہے
جسکی یادوں سے بندھی رہتی ہے دھڑکن دل کی
اور اسے دیکھ کے سینے میں یہی لگتا ہے
جیسے ویرانے میں بیمار کوئی رہتا ہے
ہم بہت چپ بھی نہیں رہ سکتے
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
اور کہتے ہیں کہ اے زرد ادواسی والے
تم تو خاموش شجر ہو کوئی
اور جھونکے سے بھی ڈر جاتے ہو
صبح ہوتی ہے تو امید سے جی اٹھتے ہو
شام ہوتی ہے تو مر جاتے ہو
ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
شام کے پار کوئی رہتا ہے

فرحت عباس شاہ



میرے سنسان آنگن میں
کوئی پنچھی نہیں آتا
کوئی تتلی نہیں آتی
کوئی جگنو نہیں آتا
گلوں کو بھی کوئی ہم سے
شکایت ہو گئی شاید
کہ خوشبو کا کوئی جھونکا
نگر میں اب نہیں آتا
مجھے ساعت جدائی کی
بہت بےچین رکھتی ہے
مری بےتاب آنکھوں کو
نظر کچھ بھی نہیں آتا
دلوں کی سرزمینوں پر،
کوئی تو نقش ہے شاید،
ترا ہی عکس ہے شاید.
ہمیں تنہا نہیں کرتا،
خیالوں سے نہیں جاتا.
تمہیں سوچیں ، تمہیں چاہیں،
تمہارا نام لیتے ہیں.
سلیقہ ہم کو جینے کا
تمہارے بن نہیں آتا.
چلے آؤ یا آنے کی،
کوئی امید دو ہم کو
خیالوں کے سہارے تو،
جیا ہم سے نہیں جاتا
مقدر ہے خفا ہم سے،
کنارے بھی جدا ہم سے
کہ روٹھے ناخدا ہم سے
کوئی طوفان ہے برپا
طلاطم خیز موجوں ہیں
تمنا کے بھنور میں ہیں،
کہ تنکا تک نہیں ملتا
بہت ہے درد سینے میں،
جو دے تکلیف جینے میں.
یہ دل کا درد آنکھوں سے،
بہایا بھی نہیں جاتا
ہمیں تم سے محبت ہے،
بتایا بھی نہیں جاتا




Sunday, December 21, 2014

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے


سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے 
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے 
تو وہ حملہ نہیں‌کرتا
سنا ہے جب 
کسی ندی کے پانی میں 
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں‌اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں‌
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوےکے انڈوں کو پروں‌سے تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گر ے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے 
کوئی پُل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری ، سانپ ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

خداوندِ جلیل و معتبر ، دانا و بینا منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر !!!

(زہرہ نگاہ)

Subconscious Mind!

What if I told you that there was a part of your mind that is always working, even when you are asleep? This part of your mind is known as...