Tuesday, December 23, 2014

سنو!

سنو!

بہت مصروف ہو تم بھی
مجھے بھی سچ کہوں تو
بہت سے کام کرنے ہیں
ابھی تشکیک باقی ہے
میری تحقیق باقی ہے
کئی غز لیں ادھوری ہیں
مری ماں کو شکایت ہے
میں کھانا بھول جاتی ہوں
کتابوں کو الگ شکوہ
کہ بے ترتیب رہتی ہیں
مگر تم جانتے ہو نا!
تمھاری یاد میں گم صم
میں پھروں بےعمل رہ کر
کئی سپنے سجاتی ہوں
تمھارے ہاتھ ہاتھوں میں
میں دھیرے سے دباتی ہوں
سنو! جو فرض ہیں میرے
توجہ سے نبھاتی ہوں
مگر یہ کیا؟
رہی یہ سردمہری اور بظاہر بے عمل رینا
کسی کو بھی نہیں بھاتا
گِلے سب کے بجا لیکن
فقط اِس پہ ہی کیا موقوف ہے
تمھیں جب یاد کرتی ہوں
میں رب کو بھول جاتی ہوں
بس اب اتنی گزارش ہے
تمھیں گر چند لمحوں کی
فراغت ہو
تو کچھ کاموں کو بن سوچے
نہ اتنے جو ضروری ہوں
انہیں تم کل پہ رکھ دینا
مری خاطر چلے آنا
مرا یہ بے عمل رہنا
تمہی موقوف کر جاؤ
مجھے مصروف کر جاؤ

پریا تابیتا


ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮔﮭﺮﻭﻧﺪﮦ ﺗﮭﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﻣﯿﮟ
ﺍِﮎ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺿﺪ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﺗﻢ ﻧﮯ ﺁﺝ ﮐﮭﻮﯾﺎ ﮨﮯ
ﺁﺝ ﺿﺒﻂ ﺭﻭﯾﺎ ﮨﮯ



ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
شام کے پار کوئی رہتا ہے
جسکی یادوں سے بندھی رہتی ہے دھڑکن دل کی
اور اسے دیکھ کے سینے میں یہی لگتا ہے
جیسے ویرانے میں بیمار کوئی رہتا ہے
ہم بہت چپ بھی نہیں رہ سکتے
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
اور کہتے ہیں کہ اے زرد ادواسی والے
تم تو خاموش شجر ہو کوئی
اور جھونکے سے بھی ڈر جاتے ہو
صبح ہوتی ہے تو امید سے جی اٹھتے ہو
شام ہوتی ہے تو مر جاتے ہو
ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
شام کے پار کوئی رہتا ہے

فرحت عباس شاہ



میرے سنسان آنگن میں
کوئی پنچھی نہیں آتا
کوئی تتلی نہیں آتی
کوئی جگنو نہیں آتا
گلوں کو بھی کوئی ہم سے
شکایت ہو گئی شاید
کہ خوشبو کا کوئی جھونکا
نگر میں اب نہیں آتا
مجھے ساعت جدائی کی
بہت بےچین رکھتی ہے
مری بےتاب آنکھوں کو
نظر کچھ بھی نہیں آتا
دلوں کی سرزمینوں پر،
کوئی تو نقش ہے شاید،
ترا ہی عکس ہے شاید.
ہمیں تنہا نہیں کرتا،
خیالوں سے نہیں جاتا.
تمہیں سوچیں ، تمہیں چاہیں،
تمہارا نام لیتے ہیں.
سلیقہ ہم کو جینے کا
تمہارے بن نہیں آتا.
چلے آؤ یا آنے کی،
کوئی امید دو ہم کو
خیالوں کے سہارے تو،
جیا ہم سے نہیں جاتا
مقدر ہے خفا ہم سے،
کنارے بھی جدا ہم سے
کہ روٹھے ناخدا ہم سے
کوئی طوفان ہے برپا
طلاطم خیز موجوں ہیں
تمنا کے بھنور میں ہیں،
کہ تنکا تک نہیں ملتا
بہت ہے درد سینے میں،
جو دے تکلیف جینے میں.
یہ دل کا درد آنکھوں سے،
بہایا بھی نہیں جاتا
ہمیں تم سے محبت ہے،
بتایا بھی نہیں جاتا




Subconscious Mind!

What if I told you that there was a part of your mind that is always working, even when you are asleep? This part of your mind is known as...