Wednesday, January 01, 2014

Saaiyan....



سائیاں

سائیاں ذات ادھوری ہے، سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے، سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن، سائیاں گھات ادھوری ہے

سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت، پیار محبت کال بہت
اور اس عالم میں سائیاں، گذر گئے ہیں سال بہت

سائیاں ہر سو درد بہت، موسم موسم سرد بہت
رستہ رستہ گرد بہت، چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر، تیرا اک اک فرد بہت

سائیاں تیرے شہر بہت، گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت، اس پہ تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں، ہم کو اک ہی پہر بہت

سائیاں دل مجبور بہت، روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت، اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں، تو بھی ہم سے دور بہت

سائیاں راہیں تنگ بہت، دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت، خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہيں، بہلانے کے ڈھنگ بہت

سائیاں میرے تارے گم، رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم، آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گئے، راکھ میں ہوئے شرارے گم

سائیاں رشتے ٹوٹ گئے، سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے، تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے، جو لوٹے ہوئوں کو لوٹ گئے

سائیاں تنہا شاموں میں، چنے گئے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں، شامل ہوئے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں، اپنا نام نہ ناموں میں

سائیاں ویرانی کے صدقے، اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے، لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں، اپنی رحمانی کے صدقے

سائیاں میرے درد گھٹا، سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا، سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں، سائیاں اپنا آپ دکھا

سائیاں میرے اچھے سائیاں، سائیاں میرے ڈولے سائیاں
سائیاں میرے پیارے سائیاں، سائیاں میرے بیبے سائیاں

  شاعر: نامعلوم
اگر آپ کو پتا ہو تو ہمیں ضرور بتائیے گا - بہت مہربانی ہو گی بھائی صاب- 

Dil he to hai....

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں

دشنۂ غمزہ جاں سِتاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکسِ رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں

قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں

حُسن اور اُس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے، غیر کو آزمائے کیوں

واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں

ہاں وہ نہیں خُدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں

غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں
Poet: Ghalib

Subconscious Mind!

What if I told you that there was a part of your mind that is always working, even when you are asleep? This part of your mind is known as...