وہ کہتی ہے کہ مجھ پر شہر کے وحشی لپکتے ہیں
میں کہتا ہوں کہ تم کردار کو سینہ سپر کر دو
وہ کہتی ہے، ہجوم بد روش سے خوف آتا ہے
میں کہتا ہوں، مجھے اجڑی ہوئی گلیاں ڈراتی ہیں
وہ کہتی ہے، مجھے بے حس زمانے سے شکایت ہے
میں کہتا ہوں کہ شکوہ شکایت رائیگاں ہے سب
وہ بولی، تم کہاں غائب ہوئے رہتے ہو راتوں کو
میں بولا، میں تو بس آوارہ پھرتا ہوں اداسی میں
وہ بولی، فون بھی اکثر بہت انگیج رکھتے ہو
میں بولا، بے سروپا گھنٹیوں سے خوف آتا ہے
وہ بولی، تم بہت کنجوس ہو خط بھی نہیں لکھتے
میں بولا، خط لکھوں تو شاعری ناراض ہوتی ہے
وہ بولی، تم کبھی ملنے چلے آؤ جو ممکن ہو
میں بولا، یہ تو تم نے میرے دل کی بات کہ دی ہے
وہ بولی، آج موسم میں عجب سی خوشگواری ہے
میں بولا، ہاں یہ موسم پیار سے ملنے کا موسم ہے
وہ کہتی ہے کہ اب آوارگی سے کچھ نہیں حاصل
مجھے حیرت ہے یہ سب کچھ وہ مجھ بادل سے کہتی ہے
وہ کہتی ہے، ہوا تو بانجھ پن تقسیم کرتی ہے
میں کہتا ہوں، مگر دھرتی ہوا کے بس سے باہر ہے
وہ کہتی ہے، شبیں دھوکے میں رکھتی ہیں ہمیشہ ہی
میں کہتا ہوں، کہیں یہ تو نہیں دھوکا دنوں میں
وہ کہتی ہے، مجھے تو زندگی سے ایک شکوہ ہے
ہمیشہ سائلوں کو موت کے سائے میں رکھتی ہے
وہ کہتی ہے، خدا ملتا تو اس سے بات کرتی میں
میں کہتا ہوں، مگر میں تو خاموشی بانٹتا رہتا
وہ کہتی ہے کہ فرحت بے ضرر رہنا نہیں اچھا
میں کہتا ہوں، کئی اچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں
وہ کہتی ہے، یہ خاموشی بھی کچھ تو سوچتی ہوگی
میں کہتا ہوں، وہی جو گفتگو کی بھیڑ میں کھو جائے
وہ کہتی ہے، کہ فرحت کچھ دنوں سے بولتے کم ہو
میں کہتا ہوں، کئی دکھ بولنے سے روک دیتے ہیں
وہ کہتی ہے، مجھے یہ سوچ کر بتلا میں کیسی ہوں
میں کہتا ہوں، سرابی سوچنے میں وقت لگتا ہے
میں کہتا ہوں، تمہیں دریا کنارے کیسے لگتے ہیں
وہ کہتی ہے، تمہیں بچھڑے سہارے کیسے لگتے ہیں
میں کہتا ہوں، مجھے تم ہنستی گاتی اچھی لگتی ہو
وہ مجھ سے، پوچھتی ہے، درد سے ڈرنے لگے ہو کیا
وہ بولی، رات سے کیا بات کرتے ہو اکیلے میں
میں بولا، درد کی، کچھ کچھ محبت کی، جدائی کی
وہ بولی، چاند کیا آتا ہے تم سے چونچلیں کرنے
میں بولا، ہاں کبھی سپنوں کے آنگن میں اترتا ہے
وہ بولی، کون اکثر یاد آتا ہے اداسی میں
میں بولا، کچھ پرانے راستے، بچپن اور اک لڑکی
وہ بولی، درد کی جزیات میں پڑنے سے کیا بہتر
میں بولا، درد کو خوش خوش سہیں اور کوچ کر جائیں
وہ بولی، زندگی تو دائرں کے پھیلنے سے ہے
میں بولا، موت بھی اک دائرہ ہے دور تک پھیلا
وہ بولی، روح کے اندر کہیں پر آگ جلتی ہے
میں بولا، ہاں دھواں میں نے بھی دیکھا ہے نگاہوں میں
وہ بولی، اک دہکتا شور شریانوں میں بہتا ہے
میں بولا، ہاں، بدن پر آبلے میں نے بھی دیکھے ہیں
وہ بولی، سانس پر بھی درد کے کوڑے برستے ہیں
میں بولا، ہاں لہو پر نیل تو میں نے بھی دیکھے ہیں
وہ بولی، ذات کی تہ میں نہ جانے کیا نہاں ہوگیا
میں بولا، جسم پر ابھری وریدوں سے بھی ظاہر ہے
وہ بولی دق زدہ جیون چھپاتی پھر رہی ہوں میں
میں بولا، ناخنوں کی زردیوں نے کر دیا عریاں
وہ بولی، تم بھی فرحت زندگی سے روٹھ جاؤ گے
میں بولا، ہاں، شاید موت مجھ سے مان جائے گی
وہ بولی، تم خوشی کے گیت کو مایوس کرتے ہو
میں بولا، کیا کروں ان مختصر گیتوں کےموسم کا
وہ بولی، تم تو فرحت خود ہی خود سے ہار جاتے ہو
میں بولا، کیا کروں کمزور ہوں اور بے سہارا ہوں
وہ بولی، کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہے تمہارا غم
میں بولا، یہ بھی ممکن ہے یہ سب احتراماً ہو
محبت میں غموں کی اس قدر یلغار کیوں،۔۔۔۔ بولی
میں بولا، تم کسی دن یہ تو اپنے آپ سے پوچھو
وہ کہتی ہے، سنو فرحت تمہارا خواب کیوں ٹوٹا
میں کہتا ہوں، سرابی دل میں کوئی کینچ پڑتی تھی
تمہاری شاعری میں زندگی کی سسکیاں کیوں ہیں
میں بولا، آنسوؤں کی ابتدائی شکل جو ٹھہرے
وہ کہتی ہے کہ فرحت شاہ میں کچھ مضطرب سی ہوں
میں کہتا ہوں، سرابی تم تو میری روح جیسی ہو
وہ کہتی ہے، تمہیں کیوں خوف آتا ہے ہواؤں سے
میں کہتا ہوں، سرابی دیپ تو ایسے ہی ہوتے ہیں
وہ کہتی ہے، چلو فرحت ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
میں خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیتا ہوں بجھنے کو
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کہا غائب ہو صدیوں سے
میں کہتا ہوں، ہزاروں وسوسوں کے درمیاں گم ہوں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات کی بےچینیاں کیا ہیں
میں کہتا ہوں، وہی جو دوریوں کے دل میں ہوتی ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خوف کا دورانیہ کیا ہے
میں کہتا ہوں، جو دل اور غم کا ہوتا ہے مصیبت میں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کی عمر کتنی ہے
میں کہتا ہوں، تمازت کے مطابق پانیوں کے وقت جتنی ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اتنی بے زباں کیوں ہے
میں کہتا ہوں، زباں تو درد کی شدت کی ہوتی ہے
محبت ایک پل بھی سکھ نہیں دیتی، کہا اس نے
کہا میں نے، محبت کے علاوہ کون سا سکھ ہے؟
محبت شہر بھر میں گونج جاتی ہے، کہا اس نے
کہا میں نے، محبت کے چھپا رہنے کی خواہش کیا
محبت چپ نہیں رہتی کسی پل بھی، کہا اس نے
کہا میں نے، محبت بن تو کائنات گونگی ہے
محبت ذہین کا اک خاص عالم ہے، کہا اس نے
کہا میں نے، محبت روح کی دہلیز ہوتی ہے
محبت بے سبب تڑپائے رکھتی ہے، کہا اس نے
کہا میں نے، کہ یہ اسباب کیا شے ہے محبت میں
وہ کہتی ہے، ستارے آنسوؤں میں کیوں چمکتے ہیں
میں کہتا ہوں، محبت روشنی میں رنگ بھرتی ہے
وہ کہتی ہے، ہوا کے ہاتھ میں کیا کیا نہیں آتا
میں کہتا ہوں، جو دہلیزوں کے اندر دفن ہوتا ہے
وہ کہتی ہے، زمانے کودلوں سے رنج کیونکر ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ آزار تو صدیوں کی قسمت ہے
وہ کہتی ہے، تمہارے بعد کیوں بارش نہیں ہوتی
میں کہتا ہوں، میری جاں ہجر صحراؤں میں رہتا ہے
وہ کہتی ہے، کہ خوشیوں میں بھی تم تو رونے لگتے ہو
میں کہتا ہوں، مری آنکھوں کو ساون اچھا لگتا ہے
فرحت عباس شاہ